مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پنسل کی داستان

پنسل کی داستان

پنسل کی داستان

برطانیہ میں جاگو!‏ کے نامہ‌نگار سے

پینسلیں عام دستیاب ہیں۔‏ وہ سستی ہیں۔‏ ان سے سیاہی نہیں ٹپکتی۔‏ آپ انہیں جیب میں رکھ سکتے ہیں۔‏ اور کاغذ پر سے ان کے نشان آسانی سے مٹائے جا سکتے ہیں۔‏ کسی اہم بات کو نوٹ کرنے کے لئے لوگ اکثر پنسل ہی استعمال کرتے ہیں۔‏ چھوٹے بچے ان کے ساتھ لکھنا سیکھتے ہیں۔‏ اور مصور ان کے ساتھ خوبصورت تصویریں بناتے ہیں۔‏ واقعی پنسل نے پوری دُنیا میں سکہ بٹھایا ہے۔‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس بےمثال قلم کی ایجاد کیسے ہوئی۔‏

کالا سیسہ

سولہویں صدی میں شمالی انگلینڈ کی وادی باروڈیل میں انوکھے قسم کے کالے پتھر دریافت ہوئے۔‏ وہ کوئلے کی طرح لگتے تھے لیکن انہیں جلایا نہیں جا سکتا تھا۔‏ جب اُنہیں کسی تختے یا کاغذ پر رگڑا جاتا تو یہ ایسے نشان دیتے جو آسانی سے مٹائے جا سکتے تھے۔‏ شروع میں لوگ اس معدنیات کو سیسہ سمجھتے تھے۔‏ اس لئے اسے عام طور پر کالا سیسہ کہا جاتا تھا۔‏ چونکہ چھونے پر یہ سیسہ چکنا معلوم ہوتا ہے اس لئے لوگ اس کے ٹکڑوں کو چمڑے یا ڈوری میں لپیٹ کر انہیں قلم کی طرح استعمال کرنے لگے۔‏ پھر کسی نامعلوم نے کالے سیسے کے چھوٹے ٹکڑوں کو لکڑی کے دستوں میں لگایا۔‏ اس طرح سادہ قسم کی پنسل وجود میں آئی۔‏ سن ۱۵۶۰ تک پینسلیں پورے یورپ میں پھیل گئیں۔‏

جلد ہی مصوروں نے پنسل استعمال کرنا شروع کر دی۔‏ پنسلوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے لوگ باروڈیل کی کانوں سے بڑے پیمانے پر کالا سیسہ نکالنے لگے۔‏ وہ دوسرے ممالک میں بھی اس کو برآمد کرتے تھے۔‏ البتہ چونکہ باروڈیل میں کالا سیسہ بڑی آسانی سے نکالا جا سکتا تھا اس لئے اس کی چوری اور غیرقانونی تجارت کی جانے لگی۔‏ اس وجہ سے برطانیہ کی حکومت نے ۱۷۵۲ میں ایک قانون عائد کِیا جس کے تحت کالے سیسے کی چوری کی سزا،‏ قید یا جِلاوطنی ٹھہرائی گئی۔‏

سن ۱۷۷۹ میں سویڈن کے ایک سائنسدان نے دریافت کِیا کہ کالا سیسہ دراصل سیسہ نہیں بلکہ خالص کاربن ہے۔‏ اس کے دس سال بعد ایک جرمن سائنسدان نے اس معدنیات کو گریفائٹ کا نام دیا۔‏ یہ نام یونانی زبان کے لفظ گرافین سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ”‏لکھنا“‏ ہے۔‏

پنسل کی صنعت

یورپ کے دوسرے ممالک میں پائے جانے والے گریفائٹ کی نسبت انگلینڈ کا گریفائٹ سب سے خالص ہے۔‏ اس وجہ سے پنسلوں کی صنعت کے لئے کافی عرصہ تک انگلینڈ ہی کا گریفائٹ استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ البتہ صنعت‌کار اسی کوشش میں تھے کہ یورپ کے گریفائٹ میں بہتری لائی جائے۔‏ پھر کونٹے نامی ایک فرانسیسی انجینئر نے گریفائٹ اور چکنی مٹی کو ملا کر اسے پنسل کے سکوں کی شکل دی۔‏ اس کے بعد اُس نے ان سکوں کو بھٹی میں ڈال دیا۔‏ سکوں میں گریفائٹ کی مقدار کم یا زیادہ کرنے سے وہ ایسی پینسلیں تیار کر سکا جو کالے رنگ کے مختلف درجے دیتی تھیں۔‏ سن ۱۷۹۵ میں کونٹے نے اس ایجاد کا پیٹنٹ حاصل کِیا۔‏ پنسلوں کو آج تک اسی طریقے سے بنایا جاتا ہے۔‏

اُنیسویں صدی میں پنسلوں کی صنعت بہت بڑھ گئی۔‏ گریفائٹ دُنیا کے مختلف علاقوں میں دریافت ہوا،‏ مثلاً سائبیریا،‏ جرمنی اور چیک ریپبلک میں۔‏ جرمنی اور امریکہ میں بےشمار کارخانوں میں پینسلیں بنائی جانے لگیں۔‏ پینسلیں اتنی بڑی تعداد میں بنائی گئیں کہ ان کی قیمت بہت ہی کم ہو گئی۔‏ بیسویں صدی کے شروع میں پینسلیں اتنی عام تھیں کہ سکول کے بچے بھی انہیں استعمال کر رہے تھے۔‏

پنسل کا مستقبل

دُنیابھر میں ہر سال پینسلیں اربوں کی تعداد میں بنائی جاتی ہیں۔‏ پنسلوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔‏ لکڑی کی ایک پنسل کے ساتھ آپ ۵۶ کلومیٹر [‏۳۵ میل]‏ لمبی لکیر کھینچ سکتے ہیں یا ۰۰۰،‏۴۵ الفاظ لکھ سکتے ہیں۔‏ دھات یا پلاسٹک کی بنی ہوئی پنسلوں میں ایک پتلا سا سکہ ہوتا ہے جسے کبھی تراشنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‏ اس کے علاوہ رنگین پینسلیں بھی ہیں جن میں گریفائٹ کی بجائے رنگ استعمال ہوتا ہے۔‏

پنسلوں کو نہ صرف طرح طرح کے کاموں کے لئے استعمال کِیا جا سکتا ہے بلکہ وہ سستی بھی ہیں۔‏ اس لئے پنسل کا استعمال ہمارے جدید زمانے میں بھی کم نہیں ہو رہا ہے۔‏ بِلاشُبہ مستقبل میں بھی پنسل آپ کے کام آتی رہے گی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر بکس/‏تصویر]‏

پنسل میں سکہ کیسے ڈالا جاتا ہے؟‏

گریفائٹ،‏ چکنی مٹی اور پانی کو ملایا جاتا ہے اور ایک پتلی سی ٹیوب میں بھر دیا جاتا ہے۔‏ جب یہ مادہ ٹیوب سے نکل آتا ہے تو وہ ایک پتلی سی ڈنڈی کی شکل میں ہوتا ہے۔‏ اِسے سُکھایا جاتا ہے اور پھر کاٹ کر بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔‏ اس کے بعد ان سکوں کو گرم تیل اور موم میں ڈالا جاتا ہے۔‏ دیودار کے درخت کی لکڑی سے تختیاں کاٹی جاتی ہیں جو آدھی پنسل جتنی موٹی ہوتی ہیں۔‏ ان تختیوں میں سکوں کے لئے نالیاں تراشی جاتی ہیں۔‏ جب ان نالیوں میں سکے ڈالے جاتے ہیں تو ان کے اُوپر لکڑی کی ایک دوسری تختی گوند سے چپکائی جاتی ہے۔‏ پھر اس تختی میں سے الگ الگ پینسلیں کاٹی جاتی ہیں۔‏ پنسلوں کی اطراف کو تراش کر ہموار کِیا جاتا ہے،‏ ان پر رنگ لگایا جاتا ہے اور کارخانے کا نشان چھاپا جاتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار پنسل پر رَبڑ بھی لگایا جاتا ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Faber-Castell AG

‏[‏صفحہ ۳۰ پر بکس/‏تصویر]‏

مَیں کس قسم کی پنسل استعمال کروں؟‏

ایک پنسل کا انتخاب کرتے وقت ان حروف اور نمبروں پر توجہ دیں جو اس پر لکھے ہیں۔‏ ان سے پتا چلتا ہے کہ پنسل کا سکہ کتنا سخت یا نرم ہے۔‏ سکہ جتنا نرم ہوتا ہے اُتنا ہی زیادہ اُس کا نشان کالا ہوتا ہے۔‏

HB کا اشارہ ایک ایسے سکے کی طرف ہے جو نہ تو بہت نرم اور نہ ہی بہت سخت ہے۔‏

B کا اشارہ نرم سکوں کی طرف ہے۔‏ جو نمبر اس کے ساتھ دیا گیا ہے،‏ مثلاً 2B یا 6B یہ نرمی کا درجہ ظاہر کرتا ہے۔‏ بڑے نمبر کا مطلب ہے کہ سکہ زیادہ نرم ہے۔‏

H کا اشارہ سخت سکوں کی طرف ہے۔‏ بڑے نمبر کا مطلب ہے کہ سکہ زیادہ سخت ہے،‏ مثلاً 2H سے زیادہ سخت 4H اور اس سے زیادہ سخت 6H ہوتا ہے۔‏

F کا اشارہ ایک بہت باریک سکے کی طرف ہے۔‏

بعض ممالک میں استعمال ہونے والے نمبر اس فہرست سے فرق ہیں۔‏ مثال کے طور پر ریاستہائےمتحدہ امریکہ میں نمبر 2 والی پنسل HB کے برابر ہے۔‏ اُس ملک میں نمبر جتنا بڑا ہوتا ہے پنسل کا سکہ اتنا ہی زیادہ سخت ہوتا ہے۔‏