مواد فوراً دِکھائیں

جان کیا ہے؟‏

جان کیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏جان“‏ کِیا گیا ہے، اُس کے لیے عبرانی میں لفظ ”‏نفش“‏ اور یونانی میں لفظ ”‏پسیخے“‏ اِستعمال ہوا ہے۔ ”‏نفش“‏ کا لفظی مطلب ہے:‏ ”‏ایک مخلوق جو سانس لیتی ہے“‏ اور ”‏پسیخے“‏ کا مطلب ہے:‏ ”‏ایک زندہ جان‌دار۔“‏ a لہٰذا جان ایک پوری مخلوق ہوتی ہے نہ کہ ایک ایسی شے جو اُس مخلوق کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہو۔ غور کریں کہ بائبل میں یہ کیسے ظاہر کِیا گیا ہے کہ ایک اِنسانی جان ایک جیتا جاگتا شخص ہوتی ہے۔‏

خدا نے آدم میں جان ڈالی نہیں تھی بلکہ آدم خود ایک جیتی جان یا زندہ شخص تھے۔‏

  •   جب یہوواہ خدا نے پہلے اِنسان یعنی آدم کو بنایا تو بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏اِنسان جیتی جان ہوا۔“‏ (‏پیدایش 2:‏7‏)‏ خدا نے آدم میں جان ڈالی نہیں تھی بلکہ آدم خود ایک جیتی جان یا زندہ شخص تھے۔‏

  •   پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ایک جان کام کر سکتی ہے، کھانے کی خواہش محسوس کر سکتی ہے، کھانا کھا سکتی ہے، حکموں کو مان سکتی ہے اور لاش کو چُھو سکتی ہے۔ (‏احبار 5:‏2؛‏ 7:‏20؛‏ 23:‏30؛‏ اِستثنا 12:‏20؛‏ رومیوں 13:‏1‏)‏ یہ ایسے کام ہیں جو جسم یا دماغ نہیں بلکہ ایک پورا شخص کرتا ہے۔‏

کیا جان غیرفانی ہے؟‏

 نہیں۔ جان مر سکتی ہے۔ بائبل کی بہت سی آیتوں میں اِس بات کا اِشارہ ملتا ہے کہ جان فانی ہے۔ اِس کی کچھ مثالیں یہ ہیں:‏

  •   ”‏جو جان گُناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔“‏—‏حِزقی‌ایل 18:‏4،‏ 20‏۔‏

  •   قدیم زمانے میں اگر بنی‌اِسرائیل میں کوئی شخص سنگین گُناہ کرتا تھا تو خدا نے اِس کی یہ سزا ٹھہرائی تھی کہ وہ ”‏جان کاٹ ڈالی جائے۔“‏ (‏خروج 12:‏15،‏ 19؛‏ احبار 7:‏20، 21،‏ 27؛‏ 19:‏8‏، کنگ جیمز ورشن‏)‏ اِس کا مطلب یہ تھا کہ وہ شخص”‏ضرور مار ڈالا جائے۔“‏—‏خروج 31:‏14‏۔‏

  •   بائبل کی کچھ آیتوں میں لاش کے لیے اِصطلا‌ح ”‏مُردہ جان“‏ اِستعمال کی گئی ہے۔ (‏احبار 21:‏11؛‏ گنتی 6:‏6‏)‏ حالانکہ اِن آیتوں میں بائبل کے بہت سے ترجموں میں اِصطلا‌حیں ”‏لاش“‏ یا ”‏مُردہ“‏ اِستعمال ہوئی ہیں لیکن عبرانی میں اِن اِصطلا‌حوں کے لیے لفظ ”‏نفش“‏ یعنی جان اِستعمال ہوا ہے۔‏

‏”‏جان“‏ کا مطلب ”‏زندگی“‏ ہو سکتا ہے

 پاک کلام میں کئی بار”‏زندگی“‏ کے لیے بھی لفظ ”‏جان“‏ اِستعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ایوب 33:‏22 میں ”‏زندگی“‏ کے لیے لفظ”‏جان“‏ (‏عبرانی میں ”‏نفش“‏)‏ اِستعمال ہوا ہے۔ بائبل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص کی جان یا زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا ختم ہو سکتی ہے۔—‏خروج 4:‏19؛‏ قضاۃ 9:‏17؛‏ فِلپّیوں 2:‏30‏۔‏

 اِن آیتوں میں لفظ ”‏جان“‏ کو جس طرح سے اِستعمال کِیا گیا ہے، اُس سے ہم اُن آیتوں کو سمجھ سکتے ہیں کہ جن میں ”‏جان نکلنے“‏ کی بات کی گئی ہے۔ (‏پیدایش 35:‏18‏، کیتھولک ترجمہ‏)‏ ”‏جان نکلنے“‏سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ کچھ ترجموں میں پیدایش 35:‏18 میں اِصطلا‌ح ”‏جان نکلنے“‏ کا ترجمہ ’‏دم توڑنا‘‏ کِیا گیا ہے۔—‏”‏اُردو جیو ورشن۔‏‏“‏

جان کے غیرفانی ہونے کا عقیدہ کہاں سے آیا؟‏

 کچھ مسیحی فرقے مانتے ہیں کہ جان غیرفانی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ بائبل کی تعلیم پر مبنی نہیں ہے بلکہ قدیم یونانی فلسفے سے آیا ہے۔ ”‏اِنسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا‏“‏ میں لکھا ہے:‏ ”‏بائبل کے مطابق جان ایک ایسی شے ہے جو سانس لے سکتی ہے۔ یہ کوئی ایسی شے نہیں ہے جو جسم سے الگ ہو سکتی ہے۔ چرچوں نے جان کے الگ ہونے کا نظریہ قدیم یونانی فلسفے سے اپنایا ہے۔“‏

 خدا اِس بات کی بالکل اِجازت نہیں دیتا کہ اُس کی تعلیمات کو اِنسانی نظریات سے ملایا جائے جیسے کہ جان کے غیرفانی ہونے کا نظریہ۔ بائبل میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے:‏ ”‏خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو ایسے فلسفوں اور فضول باتوں کا شکار نہ بنا لے جو اِنسانی روایتوں اور دُنیا کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں۔“‏—‏کُلسّیوں 2:‏8‏۔‏

a ‏”‏دی نیو براؤن،‏ ڈرائیور،‏ اینڈ برِیگز ہیبرو اینڈ اِنگلش لیکسیکن آف دی اولڈ ٹیسٹامنٹ‏“‏ کے صفحہ نمبر 659، اور ”‏لیکسیکن اِن ویٹرِس ٹیسٹامنٹی لیبروس‏“‏ کے صفحہ نمبر 627 کو دیکھیں۔ بائبل کے بہت سے ترجموں میں لفظ ”‏نفش“‏ اور ”‏پسیخے“‏ کا سیاق‌وسباق کے مطابق فرق فرق ترجمہ کِیا گیا ہے، مثلاً اِن کے لیے یہ الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں:‏ ”‏جان،“‏ ”‏زندگی،“‏ ”‏شخص،“‏ ”‏مخلوق“‏ یا ”‏جسم۔“‏