مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 22

وہ وفاداری کے اِمتحانوں پر پورے اُترے

وہ وفاداری کے اِمتحانوں پر پورے اُترے

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ جب یسوع کفرنحوم کی عبادت‌گاہ میں پیغام سنا رہے تھے تو غالباً پطرس کو کیا اُمید تھی؟‏ (‏ب)‏ پطرس کی اُمیدوں پر پانی کیسے پھر گیا؟‏

پطرس اُن لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر پریشان ہو گئے جو یسوع کا پیغام سُن رہے تھے۔‏ یہ سب لوگ پطرس کے آبائی شہر کفرنحوم کی عبادت‌گاہ میں جمع تھے۔‏ پطرس کفرنحوم میں گلیل کی جھیل کے شمالی کنارے پر ماہی‌گیری کا کاروبار کرتے تھے۔‏ اُن کے بہت سے دوست،‏ رشتےدار اور ساتھی مچھیرے بھی یہیں رہتے تھے۔‏ بِلاشُبہ پطرس کو یہ اُمید تھی کہ اُن کے شہر کے لوگ بھی اُن کی طرح یسوع کو مسیح کے طور پر قبول کر لیں گے اور عظیم‌ترین اُستاد سے خدا کی بادشاہت کے بارے میں سیکھ کر خوش ہوں گے۔‏ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔‏

2 عبادت‌گاہ میں موجود بہت سے لوگوں نے اچانک یسوع کی باتیں سننے سے اِنکار کر دیا۔‏ بعض لوگ بڑبڑاتے ہوئے اُن کے پیغام پر اِعتراض کرنے لگے۔‏ لیکن جو بات پطرس کو سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی،‏ وہ یسوع کے اپنے کچھ شاگردوں کا رویہ تھا۔‏ یسوع سے نئی سچائیاں سیکھ کر پہلے کی طرح اُن کے چہروں پر خوشی اور آنکھوں میں چمک نہیں آئی تھی۔‏ اِس کی بجائے وہ سخت اُلجھن کا شکار بلکہ غصے میں دِکھائی دے رہے تھے۔‏ اُن میں سے بعض تو یسوع کی باتیں سُن کر یہاں تک کہنے لگے کہ ”‏یہ تو بکواس ہے۔‏“‏ وہ اُن سے مزید تعلیم نہیں پانا چاہتے تھے اِس لیے وہ عبادت‌گاہ سے چلے گئے اور اُن کے پیروکار نہ رہے۔‏‏—‏یوحنا 6:‏60،‏ 66 کو پڑھیں۔‏

3.‏ اپنے ایمان کی بدولت پطرس کئی موقعوں پر کیا کرنے کے قابل ہوئے؟‏

3 یہ گھڑی پطرس اور اُن کے ساتھیوں کے لیے بڑی کٹھن تھی۔‏ اُس دن یسوع نے جو کچھ کہا تھا،‏ پطرس اُسے پوری طرح نہیں سمجھ پائے تھے۔‏ البتہ اُنہیں یہ اندازہ تھا کہ اگر یسوع کی باتوں کا لفظی مطلب نکالا جائے تو یہ کسی کو بھی ناگوار لگ سکتی ہیں۔‏ اِس صورت میں پطرس نے کیا کِیا؟‏ اپنے مالک کے لیے اُن کی وفاداری نہ تو پہلی بار آزمائی جا رہی تھی اور نہ ہی آخری بار۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ پطرس اپنے ایمان کی بدولت مشکلات میں بھی اپنی وفاداری کو کیسے قائم رکھ پائے۔‏

دوسروں کی بےوفائی کے باوجود وفادار

4،‏ 5.‏ کچھ مثالیں دیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع کبھی کبھار ایسی باتیں یا کام کرتے تھے جو لوگوں کی توقع کے خلاف ہوتے تھے۔‏

4 یسوع مسیح نے کبھی کبھار ایسی باتیں اور ایسے کام کیے جو پطرس اور دوسرے لوگوں کی توقع کے خلاف ہوتے تھے اور اُنہیں چونکا دیتے تھے۔‏ ایک دن پہلے یسوع نے معجزانہ طور پر ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا تھا اور اِس وجہ سے وہ اُنہیں بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔‏ مگر یسوع لوگوں کی توقع کے برعکس وہاں سے نکل گئے۔‏ پھر اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ کشتی پر سوار ہو کر کفرنحوم چلے جائیں۔‏ اور جب شاگرد کشتی میں تھے تو اِس موقعے پر بھی یسوع نے اُنہیں چونکا دیا۔‏ وہ اُس طوفانی رات میں گلیل کی جھیل پر چل کر اُن کے پاس آئے اور پھر اُنہوں نے پطرس کو ایمان کے حوالے سے ایک اہم درس دیا۔‏

5 اگلی صبح بِھیڑ کشتیوں میں سوار ہو کر یسوع اور اُن کے شاگردوں کے پیچھے آ گئی۔‏ ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ یسوع سے تعلیم پانے کی غرض سے نہیں بلکہ اِس لیے اُن کے پیچھے آئے تھے تاکہ وہ اُنہیں معجزانہ طور پر کھانا کھلائیں۔‏ چونکہ وہ لوگ پیٹ بھرنے کو یسوع کی تعلیمات سے زیادہ اہمیت دے رہے تھے اِس لیے یسوع نے اُنہیں ڈانٹا۔‏ (‏یوح 6:‏25-‏27‏)‏ یہ بات‌چیت کفرنحوم کی عبادت‌گاہ میں بھی جاری رہی۔‏ وہاں یسوع نے لوگوں کو ایک اہم سچائی بتانے کے لیے ایسی بات کہی جسے سُن کر وہ ایک بار پھر چونک گئے۔‏

6.‏ یسوع مسیح نے کون سی مثال دی اور اِسے سُن کر لوگوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

6 یسوع چاہتے تھے کہ لوگ کھانے کے لالچ سے اُن کے پاس نہ آئیں بلکہ اِس بات کو سمجھیں کہ اُن کی قربانی پر ایمان لانے اور اُن کی مثال پر عمل کرنے سے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے۔‏ لہٰذا یسوع نے ایک مثال دی جس میں اُنہوں نے خود کو من یعنی اُس روٹی سے تشبیہ دی جو موسیٰ کے زمانے میں آسمان سے اُتری تھی۔‏ جب بعض لوگوں نے اِس بات پر اِعتراض کِیا تو یسوع نے ایک اَور مثال دی۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے لوگوں کو اُن کا گوشت کھانا اور اُن کا خون پینا ہوگا۔‏ یہ سنتے ہی بہت سے لوگ آگ‌بگولا ہو گئے۔‏ بعض نے کہا:‏ ”‏یہ تو بکواس ہے۔‏ اِس آدمی کی باتیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔‏“‏ یہاں تک کہ یسوع کے اپنے بہت سے شاگردوں نے اُن کی پیروی کرنی چھوڑ دی۔‏ *‏—‏یوح 6:‏48-‏60،‏ 66‏۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس،‏ یسوع کے بارے میں اب تک کون سی بات نہیں سمجھ پائے تھے؟‏ (‏ب)‏ جب یسوع نے رسولوں سے ایک سوال پوچھا تو پطرس نے اُس کا کیا جواب دیا؟‏

7 ایسے حالات میں پطرس کا کیا ردِعمل تھا؟‏ یسوع کی باتیں سُن کر وہ بھی اُلجھن کا شکار ہو گئے ہوں گے۔‏ دراصل وہ اب تک اِس بات کو نہیں سمجھ پائے تھے کہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے یسوع کو اپنی جان دینی ہوگی۔‏ تو پھر کیا پطرس نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح یسوع کی پیروی کرنی چھوڑ دی؟‏ جی نہیں۔‏ پطرس میں ایک ایسی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ اُن لوگوں سے فرق تھے۔‏ وہ کون سی خوبی تھی؟‏

8 یسوع رسولوں کی طرف مُڑے اور اُن سے کہنے لگے:‏ ”‏کیا آپ بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟‏“‏ (‏یوح 6:‏67‏)‏ حالانکہ یسوع یہ سوال سبھی رسولوں سے کر رہے تھے مگر اُن 12 میں سے جواب پطرس نے دیا۔‏ اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا۔‏ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ پطرس اُن سب سے عمر میں بڑے تھے۔‏ بہرحال پطرس 12 رسولوں میں سب سے زیادہ بےباک تھے اور جو بھی اُن کے دماغ میں چل رہا ہوتا تھا،‏ وہ بول دیتے تھے۔‏ اور اِس موقعے پر جو بات اُن کے دماغ میں چل رہی تھی اور جو اُن کی زبان پر بھی آئی،‏ وہ بڑی خوب‌صورت اور یادگار تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مالک،‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔‏“‏—‏یوح 6:‏68‏۔‏

9.‏ پطرس نے یسوع مسیح کے لیے وفاداری کیسے ظاہر کی؟‏

9 کیا پطرس کے یہ الفاظ آپ کے دل کو چُھو نہیں لیتے؟‏ یسوع پر اپنے ایمان کی وجہ سے اُن میں ایک شان‌دار خوبی پیدا ہو گئی تھی اور یہ خوبی وفاداری تھی۔‏ پطرس کو یقین تھا کہ صرف یسوع ہی وہ نجات‌دہندہ ہیں جنہیں یہوواہ نے بھیجا ہے۔‏ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یسوع اپنی باتوں یعنی خدا کی بادشاہت کے بارے میں اپنی تعلیم کے ذریعے لوگوں کو بچاتے ہیں۔‏ پطرس جانتے تھے کہ اگر وہ یسوع کی بعض باتوں کو سمجھ نہیں پاتے تو بھی وہ اُنہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے کیونکہ اُنہیں کسی اَور کے ذریعے خدا کی خوشنودی اور ہمیشہ کی زندگی نہیں مل سکتی۔‏

ہمیں اُس صورت میں بھی یسوع کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے جب یہ ہماری توقعات کے برعکس ہوتی ہیں۔‏

10.‏ ہم پطرس کی طرح یسوع کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

10 کیا آپ بھی پطرس کی طرح محسوس کرتے ہیں؟‏ افسوس کی بات ہے کہ اِس دُنیا میں بہت سے لوگ یسوع سے محبت کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر خود کو اُن کے وفادار ثابت نہیں کرتے۔‏ یسوع کے لیے حقیقی وفاداری ظاہر کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم پطرس کی طرح اُن کی تعلیمات سے محبت رکھیں۔‏ ہمیں اِن تعلیمات کو سیکھنے اور اِنہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں اِن کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور اُس صورت میں بھی ایسا کرنا چاہیے اگر ہم اِنہیں سمجھ نہیں پاتے یا یہ ہماری توقعات کے برعکس ہوتی ہیں۔‏ یسوع کے وفادار رہنے سے ہی ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏‏—‏زبور 97:‏10 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *

اِصلاح ملنے پر وفادار

11.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کہاں کا سفر کِیا؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

11 گلیل کے علاقے میں اِتنے مصروف رہنے کے تھوڑی دیر بعد یسوع نے اپنے رسولوں اور کچھ اَور شاگردوں کے ساتھ شمال کی طرف ایک لمبا سفر شروع کِیا۔‏ اُنہوں نے شہر قیصریہ فِلپّی کے علاقے میں موجود دیہاتوں میں جانا تھا۔‏ اِن دیہاتوں سے تھوڑا آگے ملک کی شمالی سرحد پر کوہِ‌حرمون واقع تھا۔‏ کبھی کبھار اِس پہاڑ کی برف سے ڈھکی چوٹی گلیل کی جھیل سے نظر آتی تھی۔‏ لیکن جوں‌جوں وہ اِن دیہاتوں کے قریب پہنچے،‏ اُنہیں کوہِ‌حرمون اَور بھی صاف دِکھائی دینے لگا۔‏ * اِس سفر کے دوران اگر وہ جنوب کی طرف مُڑتے تو اُس ملک کے زیادہ‌تر علاقوں کا نظارہ کِیا جا سکتا تھا جو یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو دیا تھا۔‏ راستے میں یسوع نے اپنے شاگردوں سے ایک اہم سوال پوچھا۔‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع یہ کیوں جاننا چاہتے تھے کہ لوگ اُن کی شناخت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پطرس نے حقیقی ایمان کیسے ظاہر کِیا؟‏

12 یسوع نے شاگردوں سے پوچھا:‏ ”‏لوگ کیا کہتے ہیں کہ مَیں کون ہوں؟‏“‏ یسوع یہ جاننا چاہتے تھے کہ لوگ اُن کے کاموں کو دیکھنے اور تعلیمات کو سننے کے بعد اُن کی شناخت کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔‏ اُن کے شاگردوں نے اُنہیں بتایا کہ بعض لوگ اِس حوالے سے کون کون سی غلط‌فہمیوں کا شکار ہیں۔‏ مگر یسوع یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کہیں اُن کے شاگرد بھی باقی لوگوں جیسی غلطی تو نہیں کر رہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏لیکن آپ کے خیال میں مَیں کون ہوں؟‏“‏—‏لُو 9:‏18-‏20‏۔‏

13 ایک بار پھر پطرس نے فوراً جواب دیا۔‏ اُنہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں اپنے دل کی بات کہی جو وہاں موجود کئی شاگردوں کے دل میں بھی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ مسیح ہیں یعنی زندہ خدا کے بیٹے۔‏“‏ اِس پر یسوع نے پطرس کو داد دی اور غالباً ایسا کرتے وقت اُن کی طرف مسکرا کر دیکھا۔‏ اُنہوں نے پطرس سے کہا کہ کسی اِنسان نے نہیں بلکہ یہوواہ خدا نے اُن لوگوں پر یہ سچائی ظاہر کی ہے جو اُس پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں۔‏ پطرس بھی یہوواہ ہی کی مدد سے اِس اہم سچائی کو سمجھنے کے قابل ہوئے تھے کہ یسوع ہی وہ مسیح ہیں جس کے آنے کا وعدہ صدیوں پہلے کِیا گیا تھا۔‏‏—‏متی 16:‏16،‏ 17 کو پڑھیں۔‏

14.‏ یسوع نے پطرس کو کون سا اہم اعزاز بخشا؟‏

14 قدیم زمانے میں کی گئی پیش‌گوئیوں میں مسیح کو ایک پتھر کہا گیا تھا جسے مزدوروں نے ٹھکرا دینا تھا۔‏ (‏زبور 118:‏22؛‏ لُو 20:‏17‏)‏ اِنہی پیش‌گوئیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یسوع نے بتایا کہ خدا اُس پتھر پر اپنی کلیسیا بنائے گا جس کی شناخت پطرس نے ابھی ابھی مسیح کے طور پر کی تھی۔‏ پھر یسوع نے پطرس کو کلیسیا میں ایک اہم اعزاز بخشا۔‏ وہ اُنہیں دوسرے رسولوں سے اُونچا مرتبہ نہیں دے رہے تھے جیسا کہ بعض مذاہب میں سکھایا جاتا ہے بلکہ وہ تو بس اُنہیں کچھ ذمےداریاں سونپ رہے تھے۔‏ اُنہوں نے پطرس کو ”‏بادشاہت کی چابیاں“‏ دیں۔‏ (‏متی 16:‏18،‏ 19‏)‏ اِس طرح پطرس کو یہ اعزاز ملا کہ وہ اِن تین مختلف گروہوں کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کی اُمید کا دروازہ کھولیں:‏ سب سے پہلے یہودیوں کے لیے،‏ پھر سامریوں کے لیے اور آخر میں غیریہودیوں کے لیے۔‏

15.‏ پطرس نے یسوع کو کیوں جھڑکا اور اُن سے کیا کہا؟‏

15 بعد میں یسوع نے کہا کہ جسے زیادہ دیا جائے گا،‏ اُسے زیادہ جواب‌دہ ٹھہرایا جائے گا۔‏ اور یہ بات آگے چل کر پطرس کے سلسلے میں پوری ہوئی۔‏ (‏لُو 12:‏48‏)‏ وقت کے ساتھ ساتھ یسوع اپنے بارے میں اَور سچائیاں ظاہر کرتے رہے جن میں یہ سچائی بھی شامل تھی کہ اُنہیں یروشلیم میں سخت تکلیفوں اور آخرکار موت کا سامنا ہوگا۔‏ ایسی باتیں سُن کر پطرس بہت پریشان ہو گئے۔‏ وہ یسوع کو ایک طرف لے گئے اور اُنہیں جھڑکتے ہوئے کہنے لگے:‏ ”‏مالک!‏ خود پر رحم کریں۔‏ آپ کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔‏“‏—‏متی 16:‏21،‏ 22‏۔‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع نے پطرس کی اِصلاح کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے پطرس سے جو بات کہی،‏ اُس میں ہم سب کے لیے کون سا سبق پایا جاتا ہے؟‏

16 پطرس تو اپنی طرف سے یسوع کا بھلا چاہ رہے تھے لیکن یسوع کا جواب سُن کر اُنہیں بڑا دھچکا لگا ہوگا۔‏ یسوع نے پطرس کی طرف پیٹھ پھیر لی اور دوسرے شاگردوں کی طرف دیکھا جن کے ذہن میں بھی غالباً ایسا ہی کچھ چل رہا تھا۔‏ پھر اُنہوں نے پطرس سے کہا:‏ ”‏میرے سامنے سے ہٹ جاؤ،‏ شیطان!‏ تُم میری راہ میں رُکاوٹ بن رہے ہو کیونکہ تُم خدا کی سوچ نہیں بلکہ اِنسان کی سوچ رکھتے ہو۔‏“‏ (‏متی 16:‏23؛‏ مر 8:‏32،‏ 33‏)‏ یسوع کی اِس بات میں ہم سب کے لیے ایک اہم سبق پایا جاتا ہے۔‏ ہم بڑی آسانی سے خدا کی سوچ پر اِنسانی سوچ کو ترجیح دینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں چاہے ہمارا اِرادہ دوسرے شخص کی مدد کرنا ہی کیوں نہ ہو،‏ ہم انجانے میں اُس شخص کو ایسا کام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں جس سے خدا کی بجائے شیطان خوش ہوگا۔‏ لیکن یسوع کے الفاظ سُن کر پطرس نے کیا کِیا؟‏

17.‏ جب یسوع نے پطرس سے کہا کہ ”‏میرے سامنے سے ہٹ جاؤ“‏ تو دراصل اُن کی بات کا کیا مطلب تھا؟‏

17 پطرس یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یسوع اُنہیں شیطان اِبلیس کی طرح بُرا نہیں کہہ رہے ہیں۔‏ یہ قابلِ‌غور بات ہے کہ یسوع نے پطرس کے لیے اُتنے سنگین الفاظ اِستعمال نہیں کیے جتنے شیطان سے بات کرتے وقت کیے تھے۔‏ شیطان سے یسوع نے کہا تھا کہ ”‏چلے جاؤ“‏ جبکہ پطرس سے اُنہوں نے کہا کہ ”‏میرے سامنے سے ہٹ جاؤ۔‏“‏ (‏متی 4:‏10‏)‏ دراصل یسوع یہ کہنا چاہتے تھے کہ پطرس اُن کے سامنے آ کر اُن کے لیے رُکاوٹ نہ بنیں بلکہ اُن کے پیچھے رہ کر اُن کی حمایت کریں۔‏ لہٰذا یسوع نے پطرس کو رد نہیں کِیا تھا جن میں اُنہوں نے بہت سی خوبیاں دیکھی تھیں۔‏ وہ تو بس اِس معاملے میں اُن کی سوچ کو درست کر رہے تھے۔‏

خاکساری سے اِصلاح کو قبول کرنے اور اِس کے مطابق عمل کرنے سے ہم یسوع مسیح اور اُن کے آسمانی باپ کے اَور قریب جا سکتے ہیں۔‏

18.‏ پطرس نے اپنے مالک کے لیے وفاداری کیسے ظاہر کی اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

18 جب یسوع نے پطرس کی اِصلاح کی تو کیا اُنہوں نے اپنی صفائیاں پیش کرنی شروع کر دیں،‏ دل میں غصہ پلنے دیا یا مُنہ بنا لیا؟‏ جی نہیں بلکہ اُنہوں نے خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِصلاح کو قبول کِیا۔‏ اِس طرح اُنہوں نے ایک بار پھر اپنے مالک کے لیے وفاداری ظاہر کی۔‏ مسیح کے سبھی پیروکاروں کو کبھی نہ کبھی اِصلاح کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ اگر ہم خاکساری سے اِصلاح کو قبول کرتے ہیں اور اِس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہم یسوع مسیح اور اُن کے آسمانی باپ یہوواہ خدا کے اَور قریب جا سکتے ہیں۔‏‏—‏امثال 4:‏13 کو پڑھیں۔‏

جب پطرس کی اِصلاح کی گئی تو وہ تب بھی یسوع کے وفادار رہے۔‏

وفاداری کا اجر

19.‏ یسوع نے کون سی چونکا دینے والی بات کہی اور اِسے سُن کر شاید پطرس نے کیا سوچا ہو؟‏

19 تھوڑی دیر بعد یسوع نے اپنے شاگردوں سے ایک اَور چونکا دینے والی بات کہی۔‏ اُنہوں نے فرمایا:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو موت کا مزہ چکھنے سے پہلے اِنسان کے بیٹے کو اُس کی بادشاہت میں ضرور دیکھیں گے۔‏“‏ (‏متی 16:‏28‏)‏ یسوع کی یہ بات سُن کر بِلاشُبہ پطرس کے اندر تجسّس کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔‏ آخر یسوع کے کہنے کا کیا مطلب تھا؟‏ شاید پطرس یہ سوچ رہے تھے کہ چونکہ ابھی ابھی اُن کی اِصلاح کی گئی ہے اِس لیے اب اُنہیں ایسا کوئی اعزاز نہیں ملے گا۔‏

20،‏ 21.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس نے کون سی رُویا دیکھی؟‏ (‏ب)‏ رُویا میں ہونے والی بات‌چیت سے پطرس پر کیا واضح ہو گیا؟‏

20 تقریباً ایک ہفتے بعد یسوع یعقوب،‏ یوحنا اور پطرس کو اپنے ساتھ ”‏ایک اُونچے پہاڑ“‏ پر لے گئے۔‏ غالباً یہ کوہِ‌حرمون تھا جو اِتنا زیادہ دُور نہیں تھا۔‏ ایسا لگتا ہے کہ یہ رات کا وقت تھا کیونکہ وہ تینوں شاگرد نیند سے بےحال تھے۔‏ لیکن پھر جب یسوع دُعا کر رہے تھے تو کچھ ایسا ہوا کہ اُن کی ساری نیند بھاگ گئی۔‏—‏متی 17:‏1؛‏ لُو 9:‏28،‏ 29،‏ 32‏۔‏

21 اچانک اُن کی آنکھوں کے سامنے یسوع کی صورت بدلنے لگی۔‏ اُن کا چہرہ چمکنے لگا اور کرتے کرتے یہ سورج کی طرح روشن ہو گیا۔‏ اُن کے کپڑے بھی روشنی کی طرح سفید ہو گئے اور دمکنے لگے۔‏ پھر شاگردوں کو دو آدمی نظر آئے جو دِکھنے میں موسیٰ اور ایلیاہ جیسے تھے۔‏ وہ یسوع سے ”‏[‏اُن]‏ کی روانگی کے بارے میں بات کر رہے تھے جو یروشلیم سے ہونی تھی۔‏“‏ غالباً اِس سے مُراد یسوع کی موت اور اُن کا جی اُٹھنا تھا۔‏ اِس بات‌چیت سے واضح ہو گیا کہ پطرس کا یہ سوچنا اُن کی بھول تھی کہ یسوع کو تکلیف اور موت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‏—‏لُو 9:‏30،‏ 31‏۔‏

22،‏ 23.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس کی کون سی بات ہمارے دل کو چُھو لیتی ہے؟‏ (‏ب)‏ پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کو اَور کون سا اعزاز ملا؟‏

22 پطرس چاہتے تھے کہ وہ اِس شان‌دار رُویا کا حصہ بنیں اور شاید یہ بھی کہ یہ رُویا اِتنی جلدی ختم نہ ہو۔‏ اِس لیے جب اُنہیں لگا کہ موسیٰ اور ایلیاہ،‏ یسوع کے پاس سے جا رہے ہیں تو وہ بول اُٹھے:‏ ”‏اُستاد،‏ کتنی اچھی بات ہے کہ ہم یہاں پر ہیں۔‏ اگر آپ کہیں تو ہم تین خیمے کھڑے کر دیتے ہیں،‏ ایک آپ کے لیے،‏ ایک موسیٰ کے لیے اور ایک ایلیاہ کے لیے۔‏“‏ رُویا میں نظر آنے والے یہوواہ کے یہ بندے اصلی موسیٰ اور ایلیاہ نہیں تھے۔‏ اُنہیں تو فوت ہوئے کئی صدیاں گزر چُکی تھیں،‏ اُنہیں خیموں کی ضرورت نہیں تھی۔‏ دراصل پطرس بِلاسوچے سمجھے ہی بول رہے تھے۔‏ مگر اُن کی اچھی بات یہ تھی کہ اُن میں جوش تھا اور وہ یسوع،‏ موسیٰ اور ایلیاہ کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔‏ کیا پطرس کی یہ خوبیاں آپ کے دل کو چُھو نہیں لیتیں؟‏—‏لُو 9:‏33‏۔‏

پطرس کو یعقوب اور یوحنا کے ساتھ ایک شان‌دار رُویا دیکھنے کا اعزاز ملا۔‏

23 اُس رات پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کو ایک اَور اعزاز ملا۔‏ آسمان پر ایک بادل بنا اور پہاڑ کے اُوپر چھا گیا۔‏ پھر اِس میں سے ایک آواز آئی جو یہوواہ خدا کی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏یہ میرا بیٹا ہے۔‏ مَیں نے اِسے چُنا ہے۔‏ اِس کی سنیں۔‏“‏ اِس کے بعد رُویا ختم ہو گئی اور پہاڑ پر یسوع اور تین شاگردوں کے سوا اَور کوئی نہیں تھا۔‏—‏لُو 9:‏34-‏36‏۔‏

24.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع کی صورت بدلنے کی رُویا دیکھنے سے پطرس کو کیا فائدہ ہوا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کی صورت بدلنے کی رُویا پر غور کرنے سے آج ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

24 یسوع کی صورت بدلنے کی رُویا پطرس کے لیے بھی بڑی خاص تھی اور آج ہمارے لیے بھی ہے۔‏ بہت سالوں بعد پطرس نے اُس اعزاز کے بارے میں لکھا جب اُنہوں نے ”‏اپنی آنکھوں سے“‏ یسوع کی شان اور اُس عظمت کی جھلک دیکھی تھی جب یسوع نے آسمان پر بادشاہ بن کر حکمرانی کرنی تھی۔‏ اُس رُویا سے خدا کے کلام میں درج بہت سی پیش‌گوئیوں کی تصدیق ہوئی اور اُس کے ذریعے پطرس کا ایمان مضبوط ہوا تاکہ وہ آنے والی مشکلات کا سامنا کر سکیں۔‏ ‏(‏2-‏پطرس 1:‏16-‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ رُویا ہمارے ایمان کو بھی مضبوط کر سکتی ہے۔‏ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پطرس کی طرح اپنے مالک یسوع کے وفادار رہیں جنہیں یہوواہ نے مقرر کِیا ہے،‏ اُن سے تعلیم پاتے رہیں،‏ اُن کی طرف سے ملنے والی تربیت اور اِصلاح کو قبول کرتے رہیں اور خاکساری سے اُن کے نقشِ‌قدم پر چلتے رہیں۔‏

^ پیراگراف 6 ایک دن پہلے بِھیڑ نے جوش میں آ کر یسوع کو نبی مان لیا تھا مگر اب عبادت‌گاہ میں اُن کی باتیں سننے کے بعد اُن لوگوں کے رویے موسم کی طرح بدل گئے تھے اور وہ اُن کے خلاف ہو گئے تھے۔‏—‏یوح 6:‏14‏۔‏

^ پیراگراف 10 زبور 97:‏10 ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏:‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ سے محبت رکھنے والے بدی سے نفرت کریں،‏ کیونکہ وہ اپنے وفاداروں کی جانوں کی حفاظت کرتا ہے اور اُنہیں شریر کے ہاتھ سے رِہائی بخشتا ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 11 گلیل کی جھیل سے قیصریہ فِلپّی کے علاقے تک جانے کے لیے یسوع اور اُن کے شاگردوں نے 50 کلومیٹر (‏30 میل)‏ کا فاصلہ طے کِیا۔‏ شروع میں وہ سطحِ‌سمندر سے 210 میٹر (‏700 فٹ)‏ نیچے موجود تھے جبکہ اب وہ 350 میٹر (‏1150 فٹ)‏ کی بلندی پر پہنچ گئے تھے۔‏ اِس سفر کے دوران وہ بہت سے خوب‌صورت مقامات سے ہو کر گزرے۔‏