مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیاپر غالب آیا ہوں“‏

‏”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیاپر غالب آیا ہوں“‏

‏”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیاپر غالب آیا ہوں“‏

یسوع نے یہودی کیلنڈر کے مطابق ۱۴ نیسان کو وفات پائی۔‏ ہمارے کیلنڈر کے مطابق اس کا آغاز جمعرات،‏ ۳۱ مارچ،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ کو غروبِ‌آفتاب کے وقت ہوا تھا۔‏ اس رات یسوع اور اُسکے شاگرد عیدِفسح منانے کیلئے یروشلیم کے ایک بالاخانے میں جمع ہوئے تھے۔‏ یسوع آخر تک یعنی ”‏دُنیا سے رُخصت ہوکر باپ کے پاس“‏ جانے کے وقت تک اپنے شاگردوں سے محبت رکھتا رہا۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱‏)‏ کیسے؟‏ یسوع نے عمدہ سبق سکھاتے ہوئے اُنہیں مستقبل کیلئے تیار کرنے سے ایسا کِیا۔‏

اُس رات یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۳۳‏)‏ یسوع کا اِن الفاظ سے کیا مطلب تھا؟‏ یسوع اپنے شاگردوں سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ ’‏دُنیا کی بدی مجھے تلخ‌مزاج اور انتقام‌پرور نہیں بنا سکتی۔‏ مَیں نے دُنیا کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ مجھے اپنے سانچے میں ڈھال لے۔‏ تم بھی ایسا ہی کر سکتے ہو۔‏‘‏ یسوع نے اُن آخری گھڑیوں کے دوران اپنے شاگردوں کو جوکچھ سکھایا وہ دُنیا پر غالب آنے میں اُنکی مدد کر سکتا تھا۔‏

یسوع کی یہ بات ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔‏ آجکل بھی دُنیا میں بہت بُرائی پائی جاتی ہے۔‏ جب ہمیں ناانصافی یا تشدد کا تجربہ ہوتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟‏ کیا ہمیں بدلہ لینا چاہئے؟‏ کیا دُنیا کی بداخلاقی ہم پر بھی اثر کر رہی ہے؟‏ ناکامل ہونے کی وجہ سے ہمارا دھیان بُرے کاموں کی طرف رہتا ہے جسکی وجہ سے ہمیں دو لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں:‏ ایک لڑائی اِس بُری دُنیا کیخلاف اور دوسری اپنی بُری خواہشوں کیخلاف۔‏ کیا ہم خدا کی مدد کے بغیر یہ جنگ جیت سکتے ہیں؟‏ ہم اُسکی مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ اپنی بُری خواہشات پر قابو پانے کیلئے ہمیں اپنے اندر کونسی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ اِسکا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں اُن باتوں پر غور کرنا چاہئے جو یسوع نے اپنے منظورِنظر شاگردوں کو زمین پر اپنے آخری وقت میں بتائی تھیں۔‏

فروتنی سے تکبّر پر غالب آنا

آجکل کے معاشرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ تکبّر ہے۔‏ بائبل اِسکی بابت یہ بتاتی ہے:‏ ”‏ہلاکت سے پہلے تکبّر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۶:‏۱۸‏)‏ صحائف ہمیں مشورت دیتے ہیں:‏ ”‏اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۳‏)‏ واقعی،‏ غرور گمراہ‌کُن اور تباہ‌کُن ہوتا ہے۔‏ ”‏غرور اور گھمنڈ“‏ سے نفرت کرنا دانشمندی ہے۔‏—‏امثال ۸:‏۱۳‏۔‏

کیا یسوع کے شاگردوں میں بڑےپن اور تکبّر کا مسئلہ تھا؟‏ ایک موقع پر،‏ وہ ایک دوسرے سے بحث کر رہے تھے کہ اُن میں سب سے بڑا کون ہے۔‏ (‏مرقس ۹:‏۳۳-‏۳۷‏)‏ ایک اَور موقع پر یعقوب اور یوحنا نے یسوع سے کہا کہ وہ اُن کو آسمان میں ایک اُونچا درجہ دے۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۳۵-‏۴۵‏)‏ یسوع اپنے شاگردوں کی مدد کرنا چاہتا تھا کہ وہ اِس سوچ کو اپنے ذہن سے نکال دیں۔‏ اُسی آخری رات کو جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو یسوع نے اُٹھ کر اپنے شاگردوں کے پیر دھونے شروع کر دئے۔‏ یسوع اُنہیں ایک سبق سکھا رہا تھا۔‏ اُنہیں یہ سبق اچھی طرح سمجھانے کیلئے اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏پس جب مجھ خداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱۴‏)‏ متکبر ہونے کی بجائے شاگردوں کو فروتن بننے کی ضرورت تھی۔‏

لیکن تکبّر پر غالب آنا اتنا آسان نہیں ہے۔‏ اُسی رات یہوداہ اسکریوتی کو نکال دینے کے بعد جو یسوع کو پکڑوانے والا تھا،‏ اُن ۱۱ شاگردوں کے درمیان پھر ایک بحث چھڑ گئی۔‏ وہ آپس میں یہ بحث کر رہے تھے کہ اُن میں بڑا کون ہے!‏ لیکن یسوع نے اُنہیں فوراً جھڑکنے کی بجائے بڑے صبر سے اُن پر دوبارہ دوسروں کی خدمت کرنے کی اہمیت کو واضح کِیا۔‏ یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏غیرقوموں کے بادشاہ اُن پر حکومت چلاتے ہیں اور جو اُن پر اختیار رکھتے ہیں خداوندِنعمت کہلاتے ہیں۔‏ مگر تم ایسے نہ ہونا بلکہ جو تم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانند اور جو سردار ہے وہ خدمت کرنے والے کی مانند بنے۔‏“‏ یسوع نے اُنکو اپنی مثال دیکر کہا:‏ ”‏مَیں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں۔‏“‏—‏لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

کیا شاگردوں کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی؟‏ بدیہی طور پر اُنہیں سمجھ آ گئی تھی‌کیونکہ کئی سالوں بعد پطرس رسول نے یوں لکھا:‏ ”‏غرض سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔‏ برادرانہ محبت رکھو۔‏ نرم دل اور فروتن بنو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ ہمارے لئے بھی فروتن بن کر غرور پر غالب آنا کتنا اہم ہے!‏ ہم فروتن اُس وقت بنتے ہیں جب ہم جھوٹی شان‌وشوکت یا اختیار کے پیچھے نہیں بھاگتے۔‏ ایسا کرنے سے ہماری دانشمندی ظاہر ہوتی ہے۔‏ بائبل یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۶‏)‏ اِسی طرح ایک قدیم مثل بیان کرتی ہے:‏ ”‏دولت اور عزت‌وحیات [‏یہوواہ]‏ کے خوف اور فروتنی کا اَجر ہیں۔‏“‏—‏امثال ۲۲:‏۴‏۔‏

نفرت پر غالب آئیں مگر کیسے؟‏

نفرت ایک اَور بُری عادت ہے جو پوری دُنیا کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔‏ نفرت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسےکہ خوف،‏ لاعلمی،‏ تعصّب،‏ حکومتی دباؤ،‏ ناانصافی،‏ وطن‌پرستی اور نسل‌پرستی۔‏ بہرحال وجہ چاہے کوئی بھی ہو ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نفرت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۴‏)‏ یسوع کے زمانے میں بھی لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔‏ یہودی محصول لینے والوں سے نفرت کرتے تھے۔‏ اِسکے علاوہ یہودی سامریوں سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۹‏)‏ یہودی دیگر غیرقوم لوگوں کو بھی حقیر جانتے تھے۔‏ لیکن یسوع نے پرستش کا ایک ایسا طریقہ سکھایا جو تمام قوموں کے لوگوں کو ایک برادری کی صورت میں یکجا کر سکتا تھا۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ گلتیوں ۳:‏۲۸‏)‏ اِس وجہ سے یسوع نے شاگردوں کو ایک نیا سبق سکھایا۔‏

یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏“‏ شاگردوں کیلئے اِس قسم کی محبت رکھنا نہایت ضروری تھا کیونکہ یسوع نے یہ بھی کہا تھا کہ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ یہ ایک نیا حکم کیوں تھا؟‏ اسلئےکہ اس سے پہلے یوں حکم دیا گیا تھا کہ ”‏اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۸‏)‏ لیکن یسوع نے وضاحت کی:‏ ”‏میرا حکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ شاگردوں کو دوسروں سے محض اپنی مانند محبت نہیں کرنی تھی۔‏ بلکہ یسوع کی طرح اُنہیں بھی دوسروں کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے کیلئے تیار رہنا تھا۔‏

لیکن ناکامل اور گنہگار اشخاص کینہ‌پرور نفرت سے کسطرح بچ سکتے ہیں؟‏ وہ دوسروں کیلئے خودایثارانہ محبت رکھ سکتے ہیں۔‏ آجکل مختلف طبقاتی،‏ ثقافتی،‏ مذہبی اور سیاسی پس‌منظر کے لاکھوں خلوصدل اشخاص بالکل ایسا ہی کر رہے ہیں۔‏ وہ یہوواہ کے گواہوں کی بین‌الاقوامی برادری میں شامل ہو رہے ہیں۔‏ اُن میں نفرت کے بغیر اتحاد قائم رہتا ہے۔‏ وہ یوحنا رسول کے اِن الفاظ پر دھیان دیتے ہیں:‏ ”‏جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۵‏)‏ سچے مسیحی جنگ میں حصہ نہ لینے کے علاوہ ایک دوسرے کیلئے محبت ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں۔‏

ہمیں ایسے لوگوں کی بابت کیا سوچنا چاہئے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں اور ہم سے نفرت رکھتے ہیں؟‏ جب یسوع سُولی پر تھا تو اُس نے اپنے قاتلوں کے بارے میں یوں دُعا کی کہ ”‏اَے باپ!‏ اِنکو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۳:‏۳۴‏)‏ یسوع کے شاگرد ستفنس کی مثال لے لیجئے۔‏ اُسکے دشمن اُس سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ اُنہوں نے اُسے سنگسار کِیا۔‏ پھر بھی مرتے وقت ستفنس کے آخری الفاظ یہ تھے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ یہ گناہ اِنکے ذمہ نہ لگا۔‏“‏ (‏اعمال ۷:‏۶۰‏)‏ یسوع اور ستفنس اُن لوگوں سے بھی محبت رکھتے تھے جو اُن سے نفرت کرتے تھے۔‏ دونوں کے دلوں میں کوئی نفرت نہیں تھی۔‏ بائبل ہمیں بھی یہی مشورت دیتی ہے کہ ’‏سب کے ساتھ نیکی کریں۔‏‘‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

‏’‏ ایک ابدی مددگار‘‏

جس رات یسوع اپنے ۱۱ شاگردوں کیساتھ یہ باتیں کر رہا تھا اُس نے اُنکو یہ بھی بتایا کہ وہ جلد ہی جسمانی طور پر اُن سے جُدا ہو جائیگا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۸؛‏ ۱۶:‏۲۸‏)‏ لیکن یسوع نے اُنہیں یقین دلایا:‏ ”‏مَیں باپ سے درخواست کرونگا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۱۶‏)‏ یہ موعودہ مددگار خدا کی پاک رُوح ہے۔‏ رُوح‌اُلقدس شاگردوں کو خدا کے کلام کی گہری باتوں کو سمجھنے اور یسوع کی تعلیمات کو یاد کرنے میں مدد کریگی جو اُس نے اُنہیں اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران سکھائی تھیں۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۲۶‏۔‏

آجکل رُوح‌اُلقدس ہماری مدد کسطرح کر سکتی ہے؟‏ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ بائبل خدا کا الہامی کلام ہے۔‏ جن آدمیوں نے پیشینگوئیاں کیں اور بائبل کو لکھا وہ ”‏رُوح‌اُلقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ جب ہم بائبل کا مطالعہ کرکے اِسے اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہیں تو ہمیں علم،‏ حکمت،‏ سمجھ،‏ بصیرت،‏ فہم اور فکر کیساتھ کام کرنے کی قوت ملتی ہے۔‏ کیا ہم اِن خوبیوں کی بِنا پر اچھی طرح سے اِس شریر دُنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو جائینگے؟‏

خدا کی رُوح‌اُلقدس ایک اَور طریقے سے بھی ہماری مدد کرتی ہے۔‏ جب ہم خدا کی رُوح‌اُلقدس کے زیرِاثر رہتے ہیں تو ہم اِس قوت کی بِنا پر اچھی خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏روح کا پھل محبت،‏ خوشی،‏ اطمینان،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ نیکی،‏ ایمانداری،‏ حلم اور پرہیزگاری ہے۔‏“‏ کیا ہم اِن خوبیوں کو پیدا کرکے اُن بُری خواہشات پر غالب نہیں آ سکتے جو ہمیں بداخلاقی،‏ جھگڑے،‏ حسد اور غصے کی طرف کھینچ لے جاتی ہیں؟‏—‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

جب ہم یہوواہ کی رُوح‌اُلقدس پر انحصار کرتے ہیں تو ہمیں مشکلات برداشت کرنے کیلئے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ ملتی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ اگرچہ خدا کی رُوح‌اُلقدس اِن مشکلات کو تو شاید ختم نہ کرے لیکن یہ ہمیں اِنکو برداشت کرنے کی قوت ضرور دیگی۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ پولس رسول نے یوں لکھا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏)‏ خدا اپنی رُوح‌اُلقدس کے ذریعے ہمیں ایسی طاقت بخشتا ہے۔‏ ہم خدا کی اِس قوت کیلئے کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں!‏ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اُن تمام لوگوں کو یہ قوت دیگا جو یسوع سے ’‏محبت رکھتے اور اُسکے حکموں پر عمل کرتے‘‏ ہیں۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۱۵‏۔‏

‏”‏میری محبت میں قائم رہو“‏

اپنی انسانی زندگی کی آخری رات کو یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ بھی کہا کہ ”‏جسکے پاس میرے حکم ہیں اور وہ ان پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۱‏)‏ اِسکے علاوہ اُس نے اُنہیں یہ نصیحت بھی کی کہ ”‏میری محبت میں قائم رہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۹‏)‏ یسوع اور خدا کی محبت میں قائم رہنا اپنی بُری خواہشات اور اِس شریر دُنیا کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہونے کیلئے ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

کیا بُری خواہشات پر صرف اُس وقت قابو نہیں پایا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس ایسا کرنے کی ٹھوس وجہ موجود ہو؟‏ اِس سے بڑھ کر اَور کونسی وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم یہوواہ اور اُسکے بیٹے کیساتھ ایک اچھا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟‏ ارنسٹو * نامی ایک آدمی نے جوانی میں بہت زیادہ بُرے کام کئے تھے۔‏ اُس نے اِن کاموں کو چھوڑنے کیلئے سخت کوشش کی۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں نے بائبل سے سیکھا کہ جو حرکتیں مَیں کر رہا تھا وہ خدا کو بالکل پسند نہیں ہیں۔‏ پر مَیں خدا کو خوش کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس وجہ سے مَیں نے اپنی زندگی کو بدلنے اور خدا کے قوانین پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‏ مگر میرے ذہن میں لگاتار بُرے خیالات آتے اور مجھے روزانہ اُن پر قابو پانے کیلئے خود سے لڑائی کرنی پڑتی تھی۔‏ لیکن مَیں نے اِس جنگ میں جیتنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا۔‏ اِسلئے مَیں یہوواہ سے ہمیشہ مدد مانگتا تھا۔‏ آخرکار دو سال بعد مَیں اپنے خیالات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا لیکن مجھے ابھی بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔‏“‏

لیکن ہمیں اِس شریر دُنیا کیساتھ بھی لڑائی کرنی ہے۔‏ اِسکے بارے میں آئیے ہم یسوع کی آخری دُعا پر غور کرتے ہیں جو اُس نے اُس رات اپنے شاگردوں سے بات‌چیت ختم کرتے ہوئے مانگی تھی۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں کے بارے میں خدا سے دُعا کی اور کہا:‏ ”‏مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو انہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے انکی حفاظت کر۔‏ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ کیا ہی حوصلہ‌افزا الفاظ!‏ یہوواہ اُن لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جن سے وہ محبت رکھتا ہے اور وہ اُنکو دُنیا سے علیٰحدہ رہنے کیلئے طاقت بھی بخشتا ہے۔‏

‏”‏ایمان رکھو“‏

یسوع کے حکموں پر عمل کرنے سے ہم اِس شریر دُنیا اور اپنی بُری خواہشات پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ یہ کامیابیاں اہم تو ہیں لیکن اِنکی وجہ سے نہ تو ہمارے گناہوں اور نہ ہی اِس بدکار نظام کا خاتمہ ہوگا۔‏ لیکن ہمیں نااُمید نہیں ہونا چاہئے۔‏

بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏)‏ یسوع نے ان کیلئے ’‏جو اس پر ایمان لاتے ہیں‘‏ اپنی جان دی تاکہ ہم گناہ اور موت سے رِہا ہو سکیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ ہمیں خدا کی مرضی اور اُسکے مقاصد کے بارے میں اپنے علم کو بڑھاتے وقت یسوع کے اِن الفاظ کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے:‏ ”‏تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۴:‏۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 22 نام بدل دیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

یسوع نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی کہ ”‏میری محبت میں قائم رہو“‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

گناہ اور اِسکے اثرات سے آزادی جلد ہی ایک حقیقت بن جائیگی