مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سرِورق کا موضوع

پردیس میں زندگی—‏اُمیدیں اور مایوسیاں

پردیس میں زندگی—‏اُمیدیں اور مایوسیاں

ایک بہتر زندگی کی تلاش میں

جارج خود کو بہت بےبس محسوس کرتے تھے۔‏ اُن کے پاس اِتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر سکیں۔‏ اُن کے آس‌پڑوس کے لوگوں کا حال بھی بہت بُرا تھا۔‏ کچھ لوگ بہت بیمار تھے اور کچھ کے پاس تو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں تھی۔‏ جارج جانتے تھے کہ قریب کے ایک ملک میں لوگوں کے حالات کہیں بہتر ہیں۔‏ اِس لئے اُنہوں نے سوچا کہ ”‏مَیں اُس ملک میں چلا جاؤں گا،‏ وہاں نوکری تلاش کروں گا اور پھر اپنے گھر والوں کو بھی وہاں بلا لوں گا۔‏“‏

پٹریشا ملک نائیجیریا میں رہتی تھیں۔‏ اور وہ بھی باہر کے ملک جا کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔‏ اُن کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔‏ اُن کو لگتا تھا کہ اپنے ملک میں رہ کر وہ اپنے حالات کو کبھی بہتر نہیں بنا سکیں گی۔‏ اِس لئے اُنہوں نے سپین جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ وہاں پہنچنے کے لئے اُنہوں نے الجزائر کا راستہ لیا۔‏ لیکن اُنہیں گمان نہیں تھا کہ صحارا ریگستان میں اُن کو کتنی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں ماں بننے والی تھی اور مَیں بس چاہتی تھی کہ میرے بچے کو ایک اچھی زندگی ملے۔‏“‏

رکیل ملک فلپائن میں رہتی تھیں۔‏ اُن کی نوکری چھوٹ گئی تھی اور اُن کے رشتہ‌داروں نے اُن کو بتایا کہ یورپ میں اُن کو کسی گھر میں ملازمہ کی نوکری ضرور مل جائے گی۔‏ اِس لئے رکیل نے جہاز کی ٹکٹ کے لئے قرضہ لیا اور یورپ کے لئے روانہ ہو گئیں۔‏ جاتے ہوئے اُنہوں نے اپنے شوہر اور بیٹی سے وعدہ کِیا:‏ ”‏ہم زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے دُور نہیں رہیں گے۔‏“‏

ایک اندازے کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران تقریباً ۲۰ کروڑ سے زیادہ لوگ جارج،‏ پٹریشا اور رکیل کی طرح کسی اَور ملک میں چلے گئے۔‏ اِن میں سے کچھ لوگوں نے جنگ،‏ قدرتی آفت یا تعصب کا نشانہ بننے کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ دیا جبکہ زیادہ‌تر نے اپنے مالی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کسی دوسرے ملک کا رُخ کِیا ہے۔‏ لیکن نئے ملک میں اِن لوگوں کو کون‌سی مشکلوں کا سامنا ہوا ہے؟‏ کیا پردیس میں اِن سب کی اُمیدیں پوری ہو جاتی ہیں؟‏ جب ایک ماں یا باپ پیسہ کمانے کے لئے اپنے بچوں کو چھوڑ کر پردیس چلا جاتا ہے تو بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟‏ آئیں،‏ اِن سوالوں کے جواب پر غور کریں۔‏

سفر کا مسئلہ اور پردیس میں زندگی

پردیس جانے والوں کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑتا ہے،‏ وہ سفر ہے۔‏ جارج جن کا پچھلے مضمون میں ذکر کِیا گیا تھا،‏ اُنہوں نے سینکڑوں میل کا سفر کِیا۔‏ اِس دوران اُن کے پاس بہت ہی کم کھانا تھا۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏یہ سفر کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔‏“‏ جو لوگ پردیس جانے کے لئے روانہ ہوتے ہیں،‏ اُن میں سے بہت تو اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔‏

پٹریشا سپین جانا چاہتی تھیں۔‏ اِس کے لئے اُنہوں نے ایک کُھلے ٹرک میں صحارا ریگستان پار کِیا۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏نائیجیریا سے الجزائر تک پہنچنے میں ہمیں ایک ہفتہ لگ گیا اور جس ٹرک میں مَیں سفر کر رہی تھی،‏ اُس میں ۲۵ مسافروں کو ٹھونسا ہوا تھا۔‏ راستے میں ہم نے بہت سی لاشیں دیکھیں اور ایسے بےچاروں کو بھی دیکھا جو صحرا میں مارےمارے پھر رہے تھے اور اپنی موت کا انتظار کر رہے تھے۔‏ لگتا ہے کہ کچھ ٹرک ڈرائیور مسافروں کو آدھے راستے میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‏“‏

جارج اور پٹریشا کی نسبت رکیل کا سفر آسان تھا کیونکہ وہ ہوائی جہاز سے یورپ گئی تھیں۔‏ وہاں پہنچ کر وہ دوسروں کے گھروں میں ملازمہ کے طور پر نوکری کرنے لگیں۔‏ لیکن اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یورپ جا کر اُن کو اپنی دو سال کی بیٹی کی کتنی یاد آئے گی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب بھی مَیں ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ دیکھتی تو میرا دل اپنی بچی کی یاد میں تڑپ اُٹھتا۔‏“‏

جارج کو ایک نئے ملک میں رہنا بہت مشکل لگا۔‏ بہت مہینوں تک وہ اپنے گھر والوں کو پیسے نہیں بھیج سکے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں تنہائی اور پریشانی کی وجہ سے اکثر رات کو روتا تھا۔‏“‏

الجزائر میں کئی مہینے گزارنے کے بعد پٹریشا مراکش کی سرحد پر پہنچیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏وہاں میری بیٹی پیدا ہوئی۔‏ مجھے اُن لوگوں سے بچنا پڑا جو دوسرے ملک جانے والی عورتوں کو پکڑ لیتے ہیں اور اُن سے زبردستی جسم‌فروشی کراتے ہیں۔‏ کچھ عرصے بعد میرے پاس اِتنے پیسے ہو گئے کہ مَیں اور میری بیٹی سمندر کے راستے سپین جا سکیں۔‏ اِس کے لئے ہمیں جس کشتی میں جگہ ملی،‏ وہ بہت ٹوٹی‌پھوٹی تھی اور اِس میں حد سے زیادہ لوگ بیٹھے تھے۔‏ راستے میں کشتی کے اندر پانی بھرنے لگا اور ہمیں اپنے جوتے استعمال کرکے اِسے باہر نکالنا پڑا۔‏ جب ہم سپین کے ساحل پر پہنچے تو مجھ میں کشتی سے اُترنے کی طاقت بھی نہیں تھی۔‏“‏

جو لوگ باہر جانے کا سوچ رہے ہیں،‏ اُن کو سفر کے خطروں کے علاوہ کچھ اَور باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔‏ اُن کو یاد رکھنا چاہئے کہ نئے ملک میں اُن کو نئی زبان سیکھنی ہوگی اور نئے ماحول کا عادی بننا پڑے گا۔‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ وہاں کی شہریت حاصل کرنا یا مستقل رہائش کی اجازت حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور اِس میں بہت پیسہ اور وقت بھی لگتا ہے۔‏ جو لوگ قانونی حیثیت کے بغیر کسی ملک میں رہتے ہیں،‏ اُن کے لئے اچھی ملازمت،‏ رہنے کی جگہ اور تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے اور اُن کو علاج کے سلسلے میں بھی پریشانی اُٹھانی پڑتی ہے۔‏ اکثر وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کر پاتے اور بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے۔‏ اور بعض اوقات تو اُن لوگوں کا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے جو ویزے کے بغیر کسی ملک میں رہتے ہیں،‏ مثلاً اُن سے کولھوں کے بیل کی طرح کام لیا جاتا ہے لیکن اُنہیں بہت کم پیسے دئے جاتے ہیں۔‏

باہر جانے والے لوگ اکثر پیسے کمانے کے لئے یہ قدم اُٹھاتے ہیں۔‏ لیکن ذرا سوچیں کہ کیا زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ ہے؟‏ خدا کے کلام میں اِس سلسلے میں یہ ہدایت دی گئی:‏ ”‏مال‌دار ہونے کے لئے دوڑدھوپ نہ کر؛‏ بلکہ عقل سے کام لے اور خود پر قابو پا۔‏ دولت تیرے دیکھتےدیکھتے غائب ہو جائے گی،‏ کیونکہ اُس میں یقیناً عقاب کی مانند پَر لگ جائیں گے اور وہ آسمان کی طرف اُڑ جائے گی۔‏“‏ (‏امثال ۲۳:‏۴،‏ ۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ زندگی کی سب سے اہم چیزیں پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی ہیں،‏ مثلاً گھر والوں کی محبت اور قربت۔‏ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کچھ ماں‌باپ پیسوں سے اِتنی محبت کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے اور اپنے بچوں سے دُور رہنے کو تیار ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۳‏۔‏

انسان کی ایک بنیادی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خالق کے بارے میں جانے۔‏ اِس لئے خدا نے والدین کو یہ ذمہ‌داری سونپی کہ وہ خود اپنے بچوں کو خدا کی ذات،‏ اُس کی مرضی اور اُس کے حکموں کے بارے میں سکھائیں۔‏ سمجھ‌دار والدین اِس ذمہ‌داری کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۴‏۔‏

گھر والوں کی قربت—‏پیسوں سے زیادہ قیمتی

جتنے بھی لوگ پردیس جاتے ہیں،‏ وہ سب فرق‌فرق وجوہات سے یہ قدم اُٹھاتے ہیں۔‏ لیکن جیسا کہ ہم نے جارج،‏ رکیل اور پٹریشا کی مثال سے دیکھا ہے،‏ اِس قدم کے اکثر ایک جیسے نتیجے نکلتے ہیں۔‏ جب کوئی شخص پیسہ کمانے کے لئے اپنے بچوں یا جیون‌ساتھی کو چھوڑ کر کسی اَور جگہ چلا جاتا ہے تو گھر والوں کے لئے اُس کی جُدائی کا درد سہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔‏ اور اِس سے پہلے کہ سب گھر والے پھر سے اِکٹھے رہنے لگیں،‏ عموماً کچھ سال گزر جاتے ہیں۔‏ جارج کو اِس کے لئے چار سال سے زیادہ عرصے تک انتظار کرنا پڑا۔‏

رکیل پانچ سال تک اپنی بیٹی سے جُدا رہیں اور پھر وہ اُسے لینے کے لئے فلپائن گئیں۔‏ پٹریشا اپنی بیٹی کے ساتھ سپین پہنچ گئیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏میری بیٹی کے سوا میرا اِس دُنیا میں کوئی نہیں۔‏ اِس لئے میری کوشش ہے کہ مَیں اِس کا پوراپورا خیال رکھوں۔‏“‏

بہت سے لوگ تنہائی،‏ مالی تنگی اور اپنے گھر والوں سے جُدائی کے باوجود پردیس میں ہی رہتے ہیں۔‏ وہ اپنا بہت وقت اور پیسہ لگا کر پردیس آئے ہیں اور اِسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔‏ اور اُن کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے ملک واپس جائیں تو اُن کو وہاں شرمندگی اُٹھانی پڑے گی۔‏

اِس سب کے باوجود ایلن نامی ایک آدمی نے اپنے ملک واپس جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ وہ نوکری کرنے کے لئے سپین چلے گئے تھے لیکن وہ کہتے ہیں:‏ ”‏پردیس میں مجھے اپنی بیوی اور بیٹی کی بہت یاد آتی تھی۔‏“‏ اِس لئے وہ ۱۸ مہینے بعد اپنے ملک فلپائن واپس گئے۔‏ اب وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں پھر کبھی اُن کے بغیر دوسرے ملک نہیں جاؤں گا۔‏ اب مَیں پھر سے پردیس میں رہتا ہوں لیکن میرے گھر والے میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔‏ بس پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔‏ گھر والے اِس سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔‏“‏

ایک اَور بات بھی پیسے سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔‏ یہ بات پٹریشا کی مثال پر غور کرنے سے پتہ چلتی ہے۔‏ جب وہ سپین پہنچیں تو اُن کے پاس اِنجیل کی کتاب تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں اِس کتاب کو خوش‌قسمتی کا نشان سمجھتی تھی۔‏ پھر میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو یہوواہ کی گواہ تھی۔‏ اِس عورت کو ملنے سے پہلے مجھے اِس مذہب کے لوگوں سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‏ اُس عورت کے عقیدوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے مَیں نے اُس سے کئی سوال پوچھے۔‏ لیکن مَیں اُس کے عقیدوں کو غلط ثابت نہیں کر پائی۔‏ اُس نے اپنے ہر عقیدے کے لئے ٹھوس ثبوت دئے اور میرے ہر سوال کا جواب پاک کلام سے دیا۔‏“‏

پٹریشا نے سیکھا کہ اچھے مستقبل اور سچی خوشی حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہمارے پاس بہت پیسے ہوں یا ہم کسی اچھے ملک میں رہیں۔‏ ہم تبھی سچی خوشی اور اچھے مستقبل کی اُمید رکھ سکتے ہیں اگر ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا کون ہے اور انسانوں کے لئے اُس کا مقصد کیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ پٹریشا نے یہ بھی سیکھا کہ خدا کا ذاتی نام یہوواہ ہے۔‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ اُنہوں نے پاک کلام میں پڑھا کہ خدا بہت جلد زمین پر اپنی بادشاہت لائے گا اور یسوع مسیح کے ذریعے غربت مٹا دے گا۔‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یسوع مسیح]‏ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جس کا کوئی مددگار نہیں چھڑائے گا۔‏ وہ فدیہ دے کر اُن کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا۔‏“‏—‏زبور ۷۲:‏۱۲،‏ ۱۴‏۔‏

کیا آپ بھی پاک کلام کو پڑھنے اور اِس پر سوچ‌بچار کرنے کے لئے وقت نکال سکتے ہیں؟‏ پاک کلام میں خدا کی حکمت پائی جاتی ہے۔‏ اِس کو پڑھنے سے آپ سیکھ جائیں گے کہ آپ کی زندگی میں کون‌سی باتیں زیادہ اہم ہیں؛‏ آپ اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود خوش کیسے رہ سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۲:‏۶-‏۹،‏ ۲۰،‏ ۲۱‏۔‏