مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

طلیطلہ—‏تین تہذیبوں کا ملاپ

طلیطلہ—‏تین تہذیبوں کا ملاپ

طلیطلہ‏—‏تین تہذیبوں کا ملاپ

سپین سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

وسطیٰ سپین میں ایک بہت بڑی چٹان واقع ہے جو تین سمت سے ٹاگس دریا سے گھیری ہے۔‏ بہت صدیاں پہلے اس چٹان پر شہر طلیطلہ (‏یا تولیدو)‏ بنایا گیا۔‏ آجکل جب لوگ اس شہر کا نام سنتے ہیں تو اُن کے ذہن میں فوراً ہسپانوی ثقافت کا تصور اُبھرتا ہے۔‏

طلیطلہ کی بل کھاتی ہوئی تنگ گلیوں میں ٹہلتے وقت آپ آسانی سے تصور کر سکتے ہیں کہ صدیوں پہلے لوگوں نے یہاں کیسی زندگی گزاری ہوگی۔‏ شہر کے پُرانے پھاٹک،‏ قلعے اور پُل ایک ایسے زمانے کی یاد دلاتے ہیں جب طلیطلہ کا شمار یورپ کے عظیم‌ترین شہروں میں ہوا کرتا تھا۔‏

تاہم دیکھنے میں طلیطلہ یورپی نہیں بلکہ مشرقی شہر لگتا ہے۔‏ یہاں تک کہ اس کا ریل‌وے اسٹیشن بھی مشرقی طرز کا ہے۔‏ واقعی طلیطلہ کی عمارتیں اور اس میں بنائی جانے والی دستکاریاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ گزشتہ صدیوں کے دوران یہ شہر طرح طرح کی تہذیبوں کا مرکز رہا تھا۔‏ آج سے ۷۰۰ سال پہلے طلیطلہ اپنے عروج پر تھا۔‏ اُس وقت اس میں کئی تہذیبیں ساتھ ساتھ موجود تھیں۔‏

تہذیبوں کا ملاپ

اس سے پہلے کہ رومی قوم نے سپین پر قبضہ کِیا،‏ کلٹی اور اِبیری قبیلوں نے اِسی چٹان پر ایک شہر بنایا تھا۔‏ بعد میں رومیوں نے اس کا نام تولیتُم رکھا جس کا مطلب ”‏اُونچائی پر تعمیر کِیا گیا“‏ ہے۔‏ رومیوں نے اس شہر کو اپنے ایک صوبے کا دارالحکومت بنا دیا۔‏ رومی تاریخ‌دان لیوی نے لکھا تھا کہ ”‏یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن اسے محفوظ جگہ پر تعمیر کِیا گیا ہے۔‏“‏ رومی سلطنت کے زوال کے بعد ویسی‌گوتھ قوم نے سپین پر قبضہ جما کر طلیطلہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا۔‏ اُس وقت اس علاقے میں زیادہ‌تر لوگ آریس نامی ایک عیسائی عالم کی پیروی کرتے تھے۔‏ لیکن چھٹی صدی عیسوی میں بادشاہ ریکارڈ اس فرقے کو ترک کرکے کیتھولک مذہب کو فروغ دینے لگا۔‏ اس طرح کیتھولک مذہب نے سپین میں زور پکڑا اور اس کا سب سے اہم آرچ‌بشپ طلیطلہ ہی میں قیام کرنے لگا۔‏

طلیطلہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم خلیفہ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔‏ اُسی دَور میں وہ تنگ گلیاں وجود میں آئیں جو آج تک طلیطلہ کے پُرانے حصے میں نظر آتی ہیں۔‏ مسلمان بڑی رواداری برتتے تھے۔‏ اس لئے عیسائی،‏ یہودی اور عربی تہذیبیں طلیطلہ میں ساتھ ساتھ رہ سکیں۔‏ سن ۱۰۸۵ عیسوی میں کیتھولک بادشاہ اَلفونسو ششم نے اس شہر پر فتح حاصل کر لی۔‏ اس کے باوجود طلیطلہ میں مختلف تہذیبوں کا ملاپ کچھ صدیوں تک جاری رہا۔‏

طلیطلہ کی سب سی شاندار عمارتیں اُسی دَور میں تعمیر ہوئیں۔‏ کیتھولک حکمرانوں نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔‏ اس کے یہودی باشندوں نے دستکاری اور تجارت کے سلسلے میں اپنا ہنر کام میں لایا اور مسلمانوں نے فنِ‌تعمیر کی اپنی مہارت کے ذریعے شہر کو آراستہ کِیا۔‏ ان تینوں تہذیبوں کا ملاپ ایک اَور لحاظ سے بھی بہت کامیاب رہا۔‏ طلیطلہ میں مترجمین کا ایک مدرسہ واقع تھا جس میں عیسائی،‏ یہودی اور مسلمان علما ملکر کام کرتے تھے۔‏ بارھویں اور تیرھویں صدی کے دوران اُنہوں نے لاتعداد قدیم تحریروں کا ترجمہ لاطینی اور ہسپانوی زبان میں کِیا۔‏ اس طرح مغربی علما کو علم کا وہ وسیع خزانہ دستیاب ہو گیا جسے عربی علما نے صدیوں سے جمع کِیا تھا۔‏

البتہ چودھویں صدی میں رواداری کا یہ دَور اچانک ختم ہو گیا۔‏ اُس وقت ہزاروں یہودی شہریوں کو قتل کِیا گیا۔‏ جس زمانے میں کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ دریافت کِیا اُس زمانے میں کیتھولک عدالت نے یہودیوں اور مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا تھا۔‏ جو کوئی عیسائی مذہب کو اپنانے سے انکار کرتا اسے مُلک سے خارج کر دیا جاتا۔‏

گزشتہ شان‌وشوکت کی جھلک

طلیطلہ کے پُرانے حصے میں آج تک ۱۰۰ سے زائد قدیم عمارتیں پائی جاتی ہیں۔‏ اِس وجہ سے اقوامِ‌متحدہ کی تعلیمی،‏ سائنسی اور ثقافتی تنظیم نے شہر طلیطلہ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔‏ ان پُرانی عمارتوں میں دو شاندار پُل شامل ہیں جن کے ذریعے لوگ ٹاگس دریا پار کرکے مشرقی اور مغربی سمت سے شہر میں داخل ہو سکتے ہیں۔‏ اور پُرانے شہر کی فصیل میں ایک شاندار پھاٹک پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر سیاح دنگ رہ جاتے ہیں۔‏

طلیطلہ میں دو ایسی خاص عمارتیں ہیں جو دُور سے نظر آتی ہیں۔‏ ان میں سے ایک القصر نامی قلعہ ہے جو شہر کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔‏ یہ قلعہ ایک زمانے میں رومی صوبہ‌داروں کا محل ہوا کرتا تھا،‏ پھر اس میں ویسی‌گوتھ بادشاہ رہتے تھے۔‏ عربوں نے اِسے قلعے کے طور پر استعمال کِیا اور آخرکار اس میں ہسپانوی بادشاہوں نے قیام کِیا۔‏ آجکل اس میں فوجی میوزیم اور ایک کُتب‌خانہ ہے۔‏ دُور سے نظر آنے والی دوسری عمارت طلیطلہ کا کیتھیڈرل یعنی بڑا گِرجاگھر ہے۔‏ یہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ طلیطلہ میں ہمیشہ سے مذہب نے اہم کردار ادا کِیا ہے۔‏—‏صفحہ ۲۵ پر بکس کو بھی دیکھیں۔‏

کیتھیڈرل اور دوسرے گِرجاگھروں میں پائی جانے والی زیادہ‌تر تصویریں طلیطلہ کے ایک مشہور مصور ”‏ایل گریکو“‏ کی ہیں۔‏ اُس کے نام کا مطلب ”‏یونان کا رہنے والا“‏ ہے۔‏ (‏اُس کا اصلی نام ڈومینی‌کس تھیوٹوکوپولس تھا۔‏)‏ وہ شہر کے یہودی علاقے میں رہتا تھا۔‏ آجکل اس علاقے میں ایک تصویرخانہ ہے جس میں اُس کی بہت سی تصویریں نمائش پر ہیں۔‏

طلیطلہ کا بہترین نظارہ آپ کو اُس وقت دکھائی دے گا جب آپ شہر کے جنوب میں واقع پہاڑیوں پر چڑھ کر اس پر نظر کریں گے۔‏ لیکن اس پُرانے شہر کی خوبصورتی کا پورا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو اِس کی تنگ گلیوں میں ٹہلنا ہوگا۔‏ یقیناً اس کی شاندار عمارتوں،‏ خوشنما گزرگاہوں،‏ کندہ‌کاری سے آراستہ برآمدوں اور دلفریب دوکانوں کا سحر آپ پر چل جائے گا۔‏

طلیطلہ کی سیر کرنے کے بعد کیوں نہ ٹاگس دریا کے جنوبی کنارے پر کھڑے ہو کر اس قدیم شہر پر ایک آخری نظر ڈالیں۔‏ شام کے وقت پورا شہر غروب ہونے والے سورج کی سنہری روشنی میں ڈوب جاتا ہے۔‏ تب وہ زمانہ یاد آتا ہے جب اس تاریخی شہر کا شمار یورپ کے عظیم‌ترین شہروں میں ہوا کرتا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

طلیطلہ کی تین تہذیبیں

طلیطلہ میں کیتھولک،‏ یہودی اور مسلمان،‏ شہر کے الگ الگ علاقوں میں رہتے تھے جہاں وہ اپنے اپنے قوانین اور رسم‌ورواج کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔‏ ان کی پُرانی عبادت‌گاہوں کو دیکھنے کے لئے سیاح آجکل پوری دُنیا سے آتے ہیں۔‏

یہ مسجد جو دسویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی آج ”‏کرِسٹو دے لا لوز“‏ نام سے مشہور ہے۔‏ یہ مسلمان معماروں کی مہارت کا شاہکار ہے۔‏ یہ مسجد مدینہ نامی علاقے میں واقع ہے جہاں مسلمان رہا کرتے تھے۔‏

دو پُرانے یہودی عبادت‌خانے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایک زمانے میں طلیطلہ میں یہودیوں کی بہت بڑی آبادی ہوا کرتی تھی۔‏ بعد میں ان دونوں کو کیتھولک گرجاگھروں میں تبدیل کِیا گیا۔‏ سب سے پُرانا عبادت‌خانہ ”‏سانٹا ماریا لا بلانکا“‏ کہلاتا ہے۔‏ اس کے اندر کندہ‌کاری سے آراستہ ستون بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔‏ دوسرا عبادت‌خانہ ”‏ایل ٹرانسٹو“‏ کہلاتا ہے اور آجکل اس میں یہودی ثقافت کا ایک میوزیم واقع ہے۔‏—‏تصویر کو دیکھیں۔‏

سپین کے سب سے بڑے کیتھیڈرل کی تعمیر تیرھویں صدی میں شروع ہوئی۔‏ اسے مکمل کرنے میں ۲۰۰ سال لگے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

تلوار اور حلوا بنانے کی روایت

دو ہزار سال سے طلیطلہ کے لوہار تلوار بناتے آ رہے ہیں۔‏ رومی فوج کے علاوہ بہت سی اَور قوموں کی فوجیں بھی طلیطلہ میں بنی ہوئی تلواریں استعمال کرتی تھیں۔‏ پھر مسلمان لوہاروں نے تلواروں اور زرہ‌بکتروں پر باریک نقش‌ونگار تراشنا شروع کِیا۔‏ اس فن کی ایک مثال ساتھ دی گئی تصویر میں دکھائی دیتی ہے۔‏ (‏جاگو!‏ اپریل-‏جون ۲۰۰۵ کے مضمون ”‏دل پر نقش ہو جانے والا فن“‏ کو بھی دیکھیں۔‏)‏ آجکل بھی شہر کے کونے کونے تلوار اور زرہ‌بکتر بیچے جاتے ہیں۔‏ لیکن لوگ انہیں شمشیربازی کے لئے نہیں بلکہ محض گھر کی سجاوٹ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔‏

طلیطلہ میں مارزیپان نامی ایک خاص قسم کا بادام کا حلوا بھی بنایا جاتا ہے۔‏ یہ بھی عربوں کی ایجاد تھی۔‏ جب مسلمانوں نے سپین پر قبضہ کِیا تو وہاں بادام کے درخت کثرت سے موجود تھے۔‏ لیکن مارزیپان بنانے کی ترکیب میں چینی ایک اہم جُز ہے اور یہ سپین میں دستیاب نہیں تھی۔‏ مسلمانوں کے آنے کے تقریباً ۵۰ سال بعد جنوبی سپین میں گنے کے کھیت لگائے جانے لگے۔‏ گیارھویں صدی تک طلیطلہ مارزیپان کی صنعت کے لئے مشہور ہو گیا تھا۔‏ اور یہ بات آج تک سچ ہے۔‏ خاص دوکانوں میں مارزیپان چھوٹے مجسّموں کی شکل میں فروخت کِیا جاتا ہے۔‏ جب تک آپ نے اس لذیذ حلوے کو چکھا نہ ہو،‏ اُس وقت تک طلیطلہ کی آپ کی سیر مکمل نہیں ہوگی۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Agustín Sancho

‏[‏صفحہ ۲۴ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

پُرتگال

سپین

میڈرِڈ

طلیطلہ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سان مارٹن نامی پُل