مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خوشی کی راہ

زندگی کا مقصد جانیں

زندگی کا مقصد جانیں

اِنسان کئی لحاظ سے دوسرے جان‌داروں سے مختلف ہیں۔‏ ہم لکھتے ہیں،‏ رنگ بھرتے ہیں،‏ چیزیں بناتے ہیں اور زندگی کے اہم سوالوں کے بارے میں سوچ بچار کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر کائنات کیوں موجود ہے؟‏ ہم کیسے وجود میں آئے؟‏ زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏ مستقبل میں کیا ہوگا؟‏

کچھ لوگ ایسے سوالوں سے نظریں چُراتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ اِن کے جواب جاننا اُن کے بس سے باہر ہے۔‏ اِس کے برعکس کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے سوال فضول ہیں کیونکہ زندگی اِرتقا کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔‏ تاریخ اور بائیولوجی کے پروفیسر ولیم پرووِن نے کہا:‏ ”‏نہ کوئی خدا ہیں اور نہ کوئی مقاصد۔‏ .‏ .‏ .‏ اخلاقی معیاروں کی کوئی ایک بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی زندگی کا کوئی ایک مقصد ہے۔‏“‏

مگر کچھ لوگ اِس نظریے سے اِتفاق نہیں کرتے۔‏ اُن کا ماننا ہے کہ کائنات کا نظام اِنتہائی اعلیٰ،‏ تفصیلی اور سائنسی قوانین کے عین مطابق چل رہا ہے۔‏ وہ قدرت کے شاہکاروں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں جن میں سے کچھ کی نقل کر کے اِنسان فرق فرق چیزیں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ روزمرہ زندگی میں بھی اِن شاہکاروں کے ذریعے اُن پر آشکارا ہوتا ہے کہ یہ پیچیدہ مگر اِنتہائی منظم شاہکار خودبخود وجود میں نہیں آئے بلکہ اِنہیں کسی ماہر کاریگر نے بنایا ہے۔‏

اِسی وجہ سے اِرتقا کو ماننے والے کچھ لوگوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ پھر سے اپنے نظریے کا جائزہ لیں۔‏ آئیں،‏ دو ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھیں۔‏

نیوروسرجن ڈاکٹر الیکسی مارنو۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں جن سکولوں میں پڑھا،‏ اُن میں اِرتقا اور دہریت [‏یعنی خدا کے وجود سے اِنکار]‏ کی تعلیم دی جاتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ جو کوئی خدا کے وجود پر ایمان رکھتا تھا،‏ اُسے جاہل تصور کِیا جاتا تھا۔‏“‏ لیکن 1990ء میں الیکسی کی سوچ بدلنے لگی۔‏

وہ کہتے ہیں:‏ ”‏میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مَیں چیزوں کی منطق کو سمجھوں۔‏ .‏ .‏ .‏ اِن میں اِنسانی دماغ بھی شامل ہے۔‏ یہ حیران‌کُن عضو واقعی کائنات کی سب سے پیچیدہ چیز ہے۔‏ لیکن کیا دماغ کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک شخص علم حاصل کرے،‏ مہارتیں سیکھے اور پھر مر جائے؟‏ یہ تو بالکل نامناسب اور فضول سی بات ہوگی۔‏ اِس لیے مَیں سوچنے لگا کہ ”‏ہمارا وجود کیوں ہے؟‏ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏“‏ کافی سوچ بچار کے بعد مَیں اِس نتیجے پر پہنچا کہ کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔‏“‏

زندگی کے مقصد کی تلاش میں الیکسی نے پاک کلام کا جائزہ لینا شروع کِیا۔‏ بعد میں اُن کی بیوی نے بھی پاک کلام کا کورس کرنا شروع کِیا تاکہ اپنے شوہر کو غلط ثابت کر سکیں۔‏ دراصل وہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں اور خدا کے وجود کو نہیں مانتی تھیں۔‏ لیکن اب وہ دونوں خدا کے وجود پر پکا ایمان رکھتے ہیں اور پاک کلام سے یہ سیکھ گئے ہیں کہ اِنسانوں کے سلسلے میں خدا کا مقصد کیا ہے۔‏

پلازمہ پر تحقیق کرنے والی سائنس‌دان ڈاکٹر حوابی ین۔‏ حوابی نے فزکس کا مطالعہ کِیا اور پھر کافی سالوں تک اُنہوں نے پلازمہ پر تحقیق کی۔‏ پلازمہ کو مادے کی چوتھی حالت سمجھا جاتا ہے۔‏ پلازمہ میں (‏جیسے کہ سورج میں)‏ زیادہ‌تر الیکٹرانز اور مثبت چارج والے آئنز ہوتے ہیں۔‏

حوابی کہتی ہیں:‏ ”‏جب ہم سائنس‌دان مظاہرِقدرت پر تحقیق کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ یہ پاتے ہیں کہ کائنات میں بےاِنتہا نظم‌وضبط ہے جس کی وجہ تفصیلی قوانین ہیں۔‏ مَیں سوچتی تھی کہ ”‏اگر چولہے کی آنچ کو قابو میں رکھنے کے لیے احتیاط برتنی پڑتی ہے تو وہ قوانین کس نے بنائے ہیں جو سورج کے درجۂ‌حرارت کو قابو میں رکھتے ہیں؟‏“‏ وقت کے ساتھ ساتھ مَیں اِس نتیجے پر پہنچی کہ پاک کلام کی پہلی آیت ہی میرے اِس سوال کا جواب ہے:‏ ”‏خدا نے اِبتدا میں زمین‌وآسمان کو پیدا کِیا۔‏“‏“‏—‏پیدایش 1:‏1‏۔‏

بےشک سائنس ایسے سوالوں کے جواب تو دے سکتی ہے کہ دماغ کے خلیے کیسے کام کرتے ہیں؟‏ اور سورج روشنی اور حرارت کیسے پیدا کرتا ہے؟‏ لیکن الیکسی اور حوابی نے دیکھا کہ پاک کلام میں اِس سے بھی اہم سوالوں کے جواب پائے جاتے ہیں جیسے کہ کائنات کیوں موجود ہے؟‏ یہ قوانین کے تحت کیوں چلتی ہے؟‏ اور ہمارا وجود کیوں ہے؟‏

زمین کے بارے میں پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏خدا]‏ نے اُسے عبث [‏یعنی بِلاوجہ]‏ پیدا نہیں کِیا بلکہ اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 45:‏18‏)‏ واقعی خدا نے زمین کو ایک مقصد سے بنایا ہے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اِس مقصد کا مستقبل کے حوالے سے ہماری اُمید کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔‏